Shopping cart

Magazines cover a wide array subjects, including but not limited to fashion, lifestyle, health, politics, business, Entertainment, sports, science,

Urdu Web Novels

Muhabbat Bheek ha Shayed Season-1 Writer Uzma Zia

Email :1140

 

محبت بھیک ہے شاید

                 از قلم: عظمَی ضیاء

 

“منگتے ہیں ہم ایک ہی در کے۔۔جو در در مانگتا پھرے اسے سوالی نہیں کہتے۔۔”

محبت بھیک ہے شاید؟؟

یہ محبت ہی تو ہے جو   اپنے جیسے خوبصورت لفظ کو خالص محرم سے جوڑتے ہوئے زندگی کو خوبصورت معنی دیتی ہے۔۔

۔۔۔۔

جب محبت زندگی کو خوبصورت معنی دیتی ہے تو  کیا محبت بھیک ہوئی؟؟

Sneakpeak

”جی۔۔۔چا ئے دو نا آنٹی کو۔۔۔“  مما نی جان نے اسے کہا۔

”جی۔۔۔مما نی جان۔۔۔“  وہ مسکر ائی اور چا ئے کاکپ پر چ میں رکھ کر انہیں با ری با ری دینے لگی۔اسی اثنا ء میں شا ویز وہاں آ نمو دار ہو ا۔

”یہ یہاں۔۔۔کیوں۔۔؟؟“   وہ چا ئے پکڑ اتے ہو ئے اچانک سے اسکے وہاں آ جا نے پر خود ہی سے سو الیہ بولی۔

”شا ویز۔۔بیٹا۔۔۔کب آ ئے آ فس سے؟؟“  اس سے پہلے وہ کسی سے بات کرتا سامعیہ جلدی سے بولیں۔

”بس ابھی۔۔۔“  اس نے گھور کر مسز ہا رون کے بیٹے (جہانگیر) کو گھور کر دیکھا جو جنت کی طر ف بغو ر دیکھ رہا تھا اور پھر اپنی ماں کو جواب دیا۔

”اچھا۔۔۔بیٹھو بیٹا۔۔“  مسز ہا رون محبت سے بولیں۔

”یہ۔۔۔شا ویز ہے۔۔۔۔ہمارا سب سے چھو ٹا بیٹا۔۔۔“  ما مو ں جان (ندیم)ہا رون صا حب کو بتا نے لگے۔

”اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔۔“  وہ مسکر ائے اور شا ویز سے ملنے کے لیے اٹھ کھڑ ے ہو ئے۔

بمشکل ہی شا ویز نے خندہ پیشانی سے ان سے ملا قا ت کی مگر اس کو سب سے ذیا دہ  غصہ اس (جہانگیر) پر آ رہا تھا جو جنت کو  بغور دیکھے جا رہا تھا۔جہانگیر نے بھی اسے ملنے کے لیئے ہاتھ آگے بڑھایا جس پر اس نے برائے نام ہی اس سے ہاتھ ملایا۔

گھر کے با قی افر اد چھپ کر مہما نوں کو دیکھ رہے تھے جن میں ایمل، سدرہ  اسکی بہنیں اور مہر اسکے چچا کی بیٹی تھی۔۔۔کیو نکہ اماں بی نے ندیم اور نعیم اپنے دونوں بیٹوں کی بچیو ں کو سا منے آ نے سے منع کر دیا تھا۔کیو نکہ وہ اس معا ملے میں ذرا سخت تھیں۔۔۔جسکو دیکھنے آ ئے ہیں۔۔۔بس اسی کو دیکھیں۔۔۔یہی سو چ تھی انکی۔۔۔جبکہ ندیم صا حب کی بڑی بہو اور بیٹا  ہنی مو ن کے سلسلے میں ملک سے با ہر گئے ہو ئے تھے۔

”کیا نام ہے آپکا۔۔۔“  آ خر شا ویز بو لا۔

”جی۔۔۔جہانگیر۔۔۔“  وہ ہو لے سے بولا۔

”ام م م۔۔۔امی۔۔۔۔ابو۔۔۔۔آپ بھی ناں!   اور اماں بی۔۔۔۔آپ اتنی سا دہ لگتی تو نہیں۔۔۔“  وہ رک رک کر کچھ سو چتے ہو ئے طنز یہ انداز سے بولا۔جبکہ بڑی اور چھو ٹی مما نی جان پر یشانی سے اس کا چہر ہ پڑھنے لگیں۔

“جنت جہانگیر۔۔۔۔اف ف ف۔۔۔“  وہ بے حددکھ سے بولا۔

”کتنا عجیب لگ رہا ہے  ناں؟؟ہے کہ نہیں؟؟“  وہ سب کی طر ف دیکھ کر بولا جبکہ جنت کی آ نکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں اور با قی گھر والے حیر ان کن نگا ہو ں سے اسے دیکھنے لگے۔

”بھئی۔۔۔۔مسٹر جہانگیر آپ۔۔۔۔بہت خو بصورت ہیں۔۔۔دیکھنے سے لگتا تو نہیں کہ کم عقل ہیں آپ؟؟“   وہ طنز یہ بولا۔

”ندیم صا حب۔۔۔یہ۔۔آپکا بیٹا۔۔کیا کہہ رہا ہے؟؟؟ “  ہا رون صا حب سنجیدگی سے بولے۔اور بات کر تے کر تے رکے۔

”ارے بہن۔۔۔ہم تو آپکو معز ز لو گ سمجھ کر آ ئے ہیں یہاں۔۔۔اور یہ آپکا بیٹا۔۔۔“  مسز ہا رون اسکی حرکت پہ سخت برہم ہوئیں۔

”معز ز لوگ سمجھ کر۔۔۔“  شا ویز ہنسا۔

”تو اب گو یا کہ ہم معز ز نہیں رہے؟؟ تو اٹھیے اور اپنے گھر کی راہ لیجیئے۔۔۔۔“  وہ ہنسا اور طنز یہ مز ید کھلکھلا یا۔اماں بی اور با قی سب اسکی اس حر کت پر بے حد حیر ان ہو ئے۔

 

 ایمل،سدرہ اور مہر بھی ہکی بکی رہ گئیں۔۔۔وہ ڈرائینگ روم کے دروازے سے اندر کا منظر صا ف دیکھ رہی تھیں۔۔۔جبکہ ڈرائینگ روم میں مہما نوں کی طر ف سے سخت بر ہمی کا اظہار تھا جسے دیکھ کروہ تینوں تیزی سے وہاں سے ہٹ گئیں۔۔۔اماں بی، ندیم اور نعیم نے بہت معذ رت کی مگر اس کے با وجود بھی وہ انہیں روک نہ پا ئے جبکہ جنت اس معا ملے کو دیکھ کر وہاں سے فوراََ با ہر آ گئی۔نعیم اور زیبا نے بھی اپنی راہ لی۔

                                                                     ٭٭٭٭٭٭٭

”میں پو چھتی ہوں آ خر بنا ء اجازت کے تم وہاں آ ئے ہی کیوں؟؟“  یہ اماں بی تھیں جو شعلہ کی طر ح بھٹر ک کر شا ویز سے پو چھ رہی تھیں جبکہ شا ویز نظر یں جھکا ئے سہما ہو ا بس زمین پہ نظر یں جما ئے ہو ئے تھا۔

”اماں بی۔۔۔بچہ ہے۔۔۔آپکو تو پتہ ہے ناں!!“   سا معیہ ہکلا تے ہو ئے ہو لے سے بولیں جس پر ندیم صا حب نے گھور کر اس کو دیکھا۔

”یہ۔۔۔بچہ ہے؟؟ حد کر تی ہو سا معیہ تم بھی۔۔۔“  وہ تقر یباً غصہ سے بولے۔

”اب تم دونوں میاں بیوی لڑ نا بند کرو۔۔۔“  اماں بی نے دونوں کو خوب جھاڑ پلائی۔

”مگر اماں بی۔۔۔۔“  ندیم صا حب مز ید بو لنے کی کو شش کر نے لگے۔

”بس جا ؤ تم لو گ یہاں سے۔۔۔۔مجھے آ ج اس سے اکیلے میں بات کر نی ہے۔۔۔“  وہ حکمیہ انداز سے بو لیں۔

”جی۔۔۔“  دونوں نے ایک دوسر ے کو دیکھا اور پھر شا ویز پر نظر ڈالتے ہو ئے فوراً سے با ہر نکل گئے۔

”ہاں تو۔۔۔بر خودار۔۔۔مسئلہ کیا ہے تمھیں آ خر؟؟“اب کے انہوں نے قدرے نرمی سے استفسار کیا۔

”اماں بی۔۔۔آپ نے دیکھا نہیں تھا۔۔۔وہ جہانگیر۔۔۔وہ کسی طر ح سے جنت کے لا ئق ہے ہی نہیں۔۔۔تو پھر آپ۔۔۔“  وہ تمھید با ندھتے ہو ئے ذرا سی ہمت سے اس سے پہلے اپنی بات مکمل کر تا اماں بی اپنی گر جدار آ واز میں بو لیں۔

”اب تم مجھے بتا ؤ گے کہ کو ن کس کے لا ئق ہے؟؟ اور کون نہیں؟؟ ہاں؟؟ بولو؟؟“  

”اماں بی۔۔۔وہ۔۔۔“   وہ سہم کر بولا۔

”کیا وہ؟؟ آ خر کیا دشمنی ہے تمھاری جنت سے؟؟ جو کو ئی اس کا رشتہ دیکھنے آ تا ہے۔۔تم یہی حال کر تے ہو ان کا۔۔۔جیسا آ ج ان لو گو ں کے سا تھ کیا۔۔بلکہ ان لوگوں کے ساتھ تو حد ہی کردی تم نے بدتمیزی کی۔۔“

”اماں بی۔۔۔غلطی ہو گئی۔۔۔“  وہ شر مندگی کا اظہار کر نے کی کو شش کر نے لگا جبکہ اس کے چہر ے سے شر مندگی کسی حد تک بھی معلو م نہیں ہو رہی تھی۔

”غلطی۔۔۔؟؟“  انہو ں نے اسے مز ید گھور کر دیکھا۔

”آ خر تم چا ہتے کیا ہو؟؟“  وہ مز ید الجھیں۔

”جنت کو۔۔۔“  وہ دبی آ واز میں بو لا۔

”کیا؟؟ کیا کہا؟؟“

”وہ۔۔۔اماں بی۔۔۔“  وہ ہکلایا۔

”ابھی تو جنت پڑ ھ رہی ہے۔۔۔تو آپ کیوں؟؟“

”دیکھو بیٹا۔۔۔“   وہ نر می سے اسکو ٹو کتے ہو ئے بولیں۔

”ہم جو کر رہے ہیں اسکی بھلا ئی کے لیے کر رہے ہیں۔“

”مگر اماں بی۔۔۔“  وہ پھر سے بولا۔

”ارے بس۔۔۔بہت ہو گیا۔۔تمھیں سمجھ نہیں آ رہی میری بات کی؟؟“   وہ الجھ کر بر ہم مز اجی سے بولیں۔

”بحث پہ بحث کیے جا رہے ہو فضول میں۔۔۔اور آج کے بعد اس قسم کی حر کت تم نے کی تو بہت بر ے سے پیش آ ؤ ں گی تمھارے ساتھ۔۔۔“

”سمجھے۔۔۔“

”ابھی کو نسا پھو لوں کے ہار پہنا رہی ہیں۔۔۔“  وہ نیم مسکر ا ہٹ پیش کر تے ہوئے بولا۔

”کیا کہا تم نے؟؟“   وہ اسکی بات کو سمجھنے کی کو شش کر نے لگیں۔

”نہیں۔۔۔کچھ بھی تو نہیں۔۔۔“

”اچھا۔۔۔اب میں جاؤں؟؟“   وہ جان چھڑ وا تے ہو ئے بولا۔

”میری بات تمھاری سمجھ میں آ گئی ہے تو جا سکتے ہو۔۔۔“

”عشق  کبھی عا شقو ں کو سد ھر نے نہیں دیتا۔۔۔تو مجھے کیا خا ک سمجھ آ ئے گی۔۔۔“  وہ گر دن ہلا کر پلٹ کر  ڈرائنگ روم سے با ہر آ تے ہو ئے مسکر ا رہا تھا۔

”نجا نے کیا کہا ہو گا اماں بی نے اسے۔۔۔“  سا معیہ با ہر کھڑی ندیم صا حب سے کہہ رہی تھیں۔

”لو آ گیا تمھارا لا ڈلہ۔۔۔اسکے تا ثر ات دیکھ کر لگ نہیں رہا کہیں سے بھی کہ اسے اماں بی کے کچھ کہنے کا ذرا سا بھی اثر ہو ا ہے۔۔۔“  ندیم صا حب شا ویز کے چہر ے پر مسکر ا ہٹ کے آثار دیکھتے ہو ئے طنز یہ انداز  سے بولے۔

”آپ تو بس۔۔۔ہا تھ دھو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں میر ے بچے کے۔۔۔“  وہ شا ویز کی طر ف پیا ر سے دیکھ کر پھرندیم صا حب سے رو نے والے انداز سے بولیں۔

”یہ تمھاری ڈھیل  اور حمایت کا ہی نتیجہ ہے سا معیہ بیگم۔۔“  وہ قدرے غصہ سے بولے اور پھر وہاں سے چلدیئے جبکہ انہوں نے لا پر وا ہی سے انکی بات کو سنا اور ان سنا کر تے ہو ئے شا ویز سے لا ڈ پیا ر کر نے لگیں۔

”میرے بچے نہ کیاکرو ایسا۔۔  کوئی جنت کے ساتھ ناانصافی نہیں کررہا۔۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو۔۔“

”ارے میری ماں۔۔  ٹینشن ناٹ۔۔  اماں بی کونسا کوئی دیو ہیں۔۔جن سے اتنا ڈرتی ہیں آپ؟؟“  وہ انکے گلے کے گرد اپنی بانہیں پھیلاتا ہوا بے حد لاڈ سے بولا۔

”شاویز۔۔  دادی ہیں تمہاری۔۔  ایسا نہیں کہتے۔۔۔“  انہوں نے اسے منع کیا مگر اسکے لفظوں پہ خود کو ہنسنے سے روک نہ پائیں۔

”ویسے ایسا ہی ہے ناں۔۔“  وہ انہیں آنکھ مارتے ہوئے بولااور مسکرایا۔

”شاہ ویز۔۔“  انہوں نے اسے شکایتی نظروں سے گھورا تو وہ مزید کھلکھلا کر ہنسا۔

                                    ☆☆☆☆☆☆☆☆☆

مہر اسکے کمرے میں دا خل ہو ئی۔معمو ل کے مطا بق وہ مغر ب کے بعد لیپ ٹا پ پر اسا ئنمنٹ کا ہی کا م کر رہی تھی۔اس نے جنت کو بغور دیکھا مگر جنت نے اسکے کو ئی بات نہیں کی۔جو کچھ شا ویز نے کیا وہ پہلی دفعہ تو ہو ا نہیں تھا مگر مہر کی آ نکھوں میں اک عجیب سی شر ارت تھی۔۔۔ایک شک تھا جسے سمجھتے ہو ئے جنت نے لا پر وا ہی سے اسے دیکھا اور پھر لیپ ٹا پ پر نظر یں جما لیں۔

”ڈیر کز ن۔۔۔نظر یں کیوں چر ا رہی ہو؟؟“   مہر نے آ خر خا مو شی تو ڑتے ہو ئے دبی مسکر ا ہٹ سے کہا۔

”نظر یں؟؟ بھلا میں کیوں چر ا ؤں گی۔۔۔“ وہ ہو لے سے ہنس دی۔

”ام م م۔۔۔۔تو پھر خا مو ش کیوں ہو بھلا؟؟“

”یا ر دل نہیں چاہ رہا میر ا بات کر نے کو۔۔۔“  وہ چڑ کر تھکی ہو ئی بو لی۔

 

مکمل ناول پڑھنے کے لیے نیچے دی گئی فلب بک کے تین ڈاٹس پر کلک کریں۔

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts