Kashmir Column By Uzma Zia

کشمیر ایک الگ ریاست؟ کیا ایسا ممکن ہے؟

کسی بھی مسلمان کے لیئے خواہ وہ قابض ہو یا آزاد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت اور حج و عمرہ کا فریضہ بے حد معنی رکھتا ہے۔ مئی 2019 ،رمضان المبارک میں ہمیں  عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ اپنی فیملی کے ہمراہ ہم اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے اللہ کی راہ میں نکلے۔ ہمارا مکمل سفر بے انتہاء پرسکون اور انتہائی  امن والا رہا۔ بڑے بھائی نے ہمیں  سمجھا کر بھیجا تھا کہ وہاں مختلف ممالک سے لوگ آئے ہوں گے تو ہر ایک کے ساتھ آسانیاں بانٹنا ۔اور ہم نے ایسا ہی کیا۔

مدینہ منورہ میں نماز تراویح کی ادائیگی کے لیئے  دوسرے ملک کی کچھ خواتین ہمارے برابر میں آکھڑی ہوئیں۔ حالانکہ وہاں نمازی کے لیئے جگہ موجود نہیں تھی۔ زبان کی رکاوٹ کے باعث ہم ان کو یہ بات سمجھانے سے قاصر تھے کہ جب رکوع یا سجود کریں گے تو نماز ٹھیک طرح سے ادا نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی انہیں انگریزی زبان سمجھ آتی تھی ۔ ہم نے  تو انہیں اگلی صف میں جانے کا کہا۔  اور چند ایک کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کیا۔ لیکن ایک خاتون جس کے کہے کی تو ہمیں سمجھ  نہیں آرہی تھی لیکن اسکے ایکسپریشنز صاف اور واضح بتارہے تھے کہ وہ کسی صورت بھی یہاں سے نہیں ہلیں گی۔ حتٰی کہ دھکم پیل تک بھی وہ آگئیں۔

اب آپ اللہ کے گھر ہوں اور وہاں ایسا معاملہ؟  وہاں ہم  تین ہی پاکستانی تھیں ،باقی تمام عرب خواتین اور کچھ دوسرے ملک سے آئی ہوئی خواتین تھیں۔ ہم نے روتے ہوئے کہا کہ ۔” اللہ پاک کے گھر آکر بھی کوئی لڑتا ہے ایسے؟ ہم نے تو ہر کسی کو یہاں ایڈجسٹ کیا اور یہ موصوفہ دھکم پیل کررہی ہیں۔” ہماری آنکھوں  سے بس آنسو آنا باقی تھے ۔  آواز میں نمی کی خلش واضح جھلک رہی تھی ۔ ایک خاتون ہمارے پاس آئیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہیں ہماری بات کی سمجھ آرہی ہے۔

وہ ہمارے پاس آئیں ۔

“بچے۔کیا بات ہے ؟ آپ میری جگہ پہ آجائیں۔ میری والدہ  صحن کے احاطے میں کسی کام کے سلسلے میں گئی ہیں  ،جب وہ آئیں گی تو آپ واپس آجائیے گا۔تب تک آپ ایڈجسٹ کریں اور دیکھیں روئیں نہیں۔”

انہوں  نے اپنے پاس  مجھے جگہ دی۔ اور خود اپنی والدہ کی وہاں موجود کرسی پہ بیٹھ گئیں۔   تراویح  نماز مکمل ہوئی تو ہم نے دعا مانگنے کے بعد ایک دوسرے سے بات کی۔

وہ مجھے دیکھ کر مسکرائیں۔ بولیں۔ “اتنی سی بات پہ پریشان نہیں ہوتے بچے۔۔ “

“پریشان کیسے نہ ہوتی آپی۔۔ دیکھیں اللہ کے گھر آکر بھی کوئی ایسے کرتا ہے؟ یہ تو اسکا در ہے اور یہاں اسکے بندے ،اسکے بندوں کو ہی دھکے دیں؟کیوں؟”

میری بات سن کر وہ مسکرادیں۔ بولیں۔ “بچے  اسکے در پہ آکر ملتا بھی تو بہت کچھ ہے۔ یہاں آکر جتنا سکون ہے ،اسکے مقابلے میں ان دھکوں کی کیا حیثیت؟”

اب کہ میرے آنسو خشک ہوئے ۔ میں نے مسکراتے ہوئے انکی آنکھوں میں دیکھا ،جس میں گہرہ درد چھپا تھا۔

“آپ کہاں سے ہیں؟”  میرے سوال پہ  ان کے چہرے پہ درد کی ایک جھلک نظر آئی۔

“کشمیر سے۔۔”

“پاکستان کے کشمیر سے؟”

“نہیں۔۔۔ اپنے کشمیر سے۔۔”

“اپنے کشمیر؟؟” میں ہنسی۔

“دیکھیں۔۔ ایک کشمیر تو پاکستان میں ہے اور ایک کشمیر انڈیا میں۔۔ مقبوضہ جموں کشمیر۔۔ “

“مقبوضہ جموں کشمیر۔۔۔” انہوں نے ذرا آہستگی سے جواب دیا۔

“سیرئیسلی۔۔ تبھی میں کہوں ۔۔آپ اتنی پیاری کیسے ہیں۔۔”  انتہائی پرجوشی سے میرے منہ سے نکلا۔

“پیاری تو آپ بھی ہیں۔۔ بس جذباتی ہوجاتی ہیں۔۔”  وہ ہنسی۔

“ہاں ۔۔یہ تو ہے۔۔ خیر۔۔آپ بتائیں۔۔ یہاں آنے کی آزادی ہے آپکو؟ میرا مطلب ۔۔ہم نے تو سنا ہے  کہ وہاں بہت ظلم ہوتا ہے کشمیر کے رہنے والوں پہ۔۔۔لیکن انہوں نے تو آپ کو یہاں بھی آنے دیا۔۔”

میری بات سن کر وہ نیم  انداز میں مسکرادیں۔

“یہاں کیسے آنے نہ دیں؟  جب ہم فیس بھرتے ہیں تو آنے سے کیسے روک پائیں گے؟ “

“لیکن وہاں رہ کر اتنی فیس بھرنا مشکل نہیں؟”

“ہاں مشکل تو ہے بچے۔اسی لیئے تو وہاں موجود ہر کوئی یہاں آسانی سے نہیں آسکتا۔۔  ایک عرصے سے ہم رقم جمع کررہے ہیں۔ روزگار بھی ٹھپ ہے۔ دکانیں کھولتے ہیں تو جب جی چاہے یہ لوگ آکر  دعوٰی بول دیتے ہیں۔ مارکٹائی۔۔او ر ہمارے مردوں پہ ظلم و تشدد۔۔ اور عورتوں۔۔۔” بات کرتے کرتے وہ چپ کرگئیں۔

اس کے بعد  میں نے اس سے سوال نہیں کیا۔ اسکے لہجے میں اذیت اور کرب صاف نظر آرہا تھا مگر آنکھیں بالکل خشک۔۔ مسجد نبوی میں بیٹھ کر وہ اس بات پہ پرامید تھیں کہ اچھا وقت قریب ہے۔ بے حد قریب۔۔۔

“آپی! آپ وہاں جائیں گی تو آپ کے رشتہ دار کتنا خوش ہوں گے ۔۔آبِ زم زم   چیز ہی ایسی ہے۔۔ وہ لوگ یہاں نہیں آئے لیکن آپ  یہاں سے جو زم زم لے کرجائیں گی ،ان کے لیئے وہی خوشی کی بات ہوگی۔۔”  میں نے بات کا رخ بدلنا چاہا۔

اب کہ انکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ سرد آہ بھرتے ہوئے بولیں۔

“بچے۔۔   قسمت کی بات ہے۔۔ کیا پتہ یہ انکو نصیب نہ بھی ہو۔۔”

“کیا ؟کیا مطلب؟ نصیب کیوں نہ ہوگا؟؟”

“یہ انکی مرضی  ۔۔وہ ہمیں زم زم لے کر جانے دیں یا نہ جانے دیں۔۔ کھجوریں لے کر جانے میں کوئی روک نہیں۔۔لیکن آبِ زم زم ہوسکتا ہے وہ وہیں پھینک دیں۔۔”

یہ سن کر ہی میرا دماغ چکراسا گیا۔ “نہیں۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔ ناممکن۔۔  “

“زم زم  پینے کے لیئے تو میں خوب اہتمام کرتی ہوں۔ جب بھی کوئی اللہ کے گھر سے زم زم لاتا ہے تو میری ایک ہی گزارش ہوتی ہے ۔اور کچھ لائیں یا نہ لائیں لیکن زم زم خالص ضرور دیجیئے گا۔۔ یہی تحفہ کافی ہے۔۔ اور یہاں آپ کے ساتھ یہ سب۔۔کیوں؟؟”

“قابض ہیں  بچے۔۔ اور قابض لوگ کیوں کا جواب مانگنے بیٹھیں گے تو  شاید ان کے پاس کچھ نہ بچے۔ جو مل رہا ہے شاید وہ بھی نہ رہے۔۔اور ویسے بھی ہمارے لیئے کوئی کوشش کہاں کررہا ہے؟ لیکن اللہ ہے ناں۔۔۔”

انکی بات تو ٹھیک تھی ۔لیکن وہ اتنی پرامید تھیں ،رشک ہوا ا نکے انتہائی پرکشش چہرے کو  دیکھ کر۔

“آزمائش سخت ضرور ہے بچے ۔۔لیکن اسکا اجر اللہ کے ہاں  بہت بڑا ہے۔۔”

اللہ پہ اتنا یقین۔۔ فاطمہ آپی کا لب و لہجہ دیکھ کر دل میں کہیں سکون سا آگیا۔ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے غموں کو لیئے بیٹھے روتے ہیں اور وہ  ہر روز اذیت میں رہ کر بھی پرامید ہیں۔۔  رشک ہوا انکو دیکھ کر۔۔۔

“آپ کیا چاہتی ہیں؟ پاکستان  کے ساتھ الحاق ہو یا انڈیا کے ساتھ؟؟”

“کسی کے ساتھ بھی نہیں۔۔”

میں انکے جواب پہ حیران تھی۔

“پھر؟”

“ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر کو ایک الگ ریاست بنادیں ۔۔بس۔۔ ہم نہ  تو انڈیا کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں اور نہ ہی پاکستان۔۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی ہمارے لیئے کام نہیں کررہا۔ سب وقتی ہے۔۔ اور ہم اپنی جان سے جاتے رہتے ہیں۔۔ جو کوئی بھی اقتدار میں آتا ہے صرف اپنی سیاست کا بول بالا کرتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔۔”

“لیکن مجھے امید ہے کہ جلد آپ سے پاکستان میں ملاقات ہوگی۔۔مجھے یقین ہے کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہوگا۔۔ان شاء اللہ۔۔۔”

میری بات سن کر وہ مسکرادیں۔

“آپ بہت سادہ ہیں  بچے۔۔  اللہ سے دعا کریں کہ کشمیر میں بچوں عورتو ں پہ جو ظلم ڈھایا جارہا ہے وہ ختم ہو جائے اور کشمیر کو ایک الگ ریاست بنادیا جائے۔ “

ایسا اس نے دوسری مرتبہ کہا تھا۔ “کشمیر ۔۔ایک الگ ریاست۔۔”

“آمین۔۔۔”

مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ انکی آییڈیالوجی کیا ہے؟

اس دن کے بعد میری آپی  فاطمہ خانم سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن  آج بھی انکا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے ۔

“کشمیر کو ایک الگ ریاست بنا دیا جائے۔۔”  انکے یہ الفاظ اکثر مجھے یاد آتے ہیں۔

“کیا ایسا ممکن ہے؟” میرا دل آج بھی اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا۔

امِ محمدیہ کی شہباز جرنیل کتاب پڑھنے کے بعد  مجھے فاطمہ آپی بے حد یاد آئیں۔ وہ یہی کہا کرتی تھیں کہ بچے۔۔ کوئی ہمارے لیئے کام نہیں کررہا۔۔یہ سب وقتی ہے۔۔اور ہم اپنی جان سے جاتے رہتے ہیں۔ جو کوئی بھی اقتدار میں آتا ہے ۔صرف بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔۔ اور ایسا ہی غازی بابا شہباز جرنیل  شہید کے ساتھ ہوا۔

میرا سوال ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسی تنظیم موجود نہیں جو مظلموں کی داد رسی کرسکے؟ اگر آپ سب کا جواب  اقوامِ متحدہ ہے تو ۔۔ کہاں ہے پھر یہ سوئی ہی اقوامِ متحدہ؟؟

اگر پاکستان کے رہنے والے لوگ کشمیر کی آزادی اور انکے حق کے لیئے لڑرہے ہیں تو کیا یہ اچھا طریقہ ہے کہ انڈیا کے جھنڈوں کو اپنے پیروں تلے روند کر آپ  یومِ سیاہ منائیں؟  اخلاقیات سے بالاتر طریقہ۔۔ اللہ کے لیئے مت اپنائیں ایسا طریقہ کار۔۔ اپنے دلائل اتنے مضبوط کریں کہ آپ کو یہ طریقہ کار اختیار کرنا ہی نہ پڑے۔

بحیثیتِ مسلمان ! یہ سب  زیب نہیں دیتا۔۔اگر وہ بھی ایسا ہی عمل کریں تو؟؟؟ کیا آپکو قبول ہوگا کہ کوئی پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ ایسا کرے؟   

فرمانِ الہی ہے:

اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بناء پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ اُنہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔                                        (سورہ الانعام)

بے شک اللہ کے سوا کوئی نہیں جو مظلموں کی داد رسی کرسکے۔  بے شک آزمائش سخت ہے ۔۔لیکن اس سے ملنے والا اجر بہت بڑا ہوگا۔۔

(تحریر پڑھنے کے بعد آرٹیکل رائٹر کو ڈرانے والے افراد اس  تحریر سے دو رہیں۔   دنیا کا کوئی بھی کیس بڑا نہیں ہوتا بصورت دیگر آپکا کیس  اللہ کی عدالت میں پہنچ چکا ہو۔)

ازقلم: aaعظمٰی ضیاء

Instagram : @uzmaziaofficial1

Loading

Total Views: 22 ,