Kashmir Tour
سیر وسیاحت یا بیوقوفی؟
پچھلے دنوں ہمارا نیلم ویلی کشمیر جانے کا اتفاق ہوا۔ اپنی روزمرہ کی روٹین سے تنگ آکر ہم تینوں دوستوں نے ویک اینڈ آف کیا اور ٹور کا پلان بنایا۔ ایک نامور کمپنی کے ہیڈ سے ہمارا رابطہ تھا اور ہم اکثر ان کے ساتھ ہی ٹور پہ جایا کرتے تھے۔ کئی مہینوں سے کئی گھریلو مسائل کی وجہ سے ہمارا پلان آن/آف ہوتا رہا۔ لیکن ہم نے جب بھی پلان بنایا ،انہی سے رابطہ کیا۔
یہ ہمارا پانچواں ٹور تھا جو ہم تینوں دوستوں نے ساتھ کیا۔ ہمیشہ کی طرح سکون کی امید لگائے ہم ٹور کے لیئے رواں دواں تھے۔ لیکن ہمیں اس بات کی کیا خبر تھی کہ جو بچا کھچا سکون ہے وہ بھی غارت ہوجائے گا۔ خیر۔۔ میرے اس آرٹیکل کا مقصد ہر گز کسی ٹور کمپنی کو ٹارگٹ کرنا نہیں۔۔میرا مقصد صرف ان لوگوں کو باور کرنا ہے کہ برائے کرم روپیہ پیسہ ایک طرف،ایک ٹورسٹ اپنا وقت انوسٹ کرتا ہے تو خدارا اس کے ساتھ رنگ بازیاں کھیلنے کی بجائے صاف صاف اور سیدھی بات کریں۔
پہلے آپ کہتے ہیں کہ ہماری کمپنی کا ٹور ہے ۔ اور بعد میں وہ ٹور ایک فری لانسر کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے۔۔ عجیب۔۔۔
آغاز سفر سے ہی اندازہ ہونا شروع ہوگیا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہورہا۔۔لیکن کیا کرسکتے تھے؟
گاڑی میں موجود ایک گروپ میں دو لڑکے اور ایک لڑکی موجود تھی۔ انتہائی غیر میذب لوگ۔۔ بات کرنے کی سینس نہیں۔۔ فیملی ٹور میں ماں بہن کی گالیاں وہ سارے ٹور میں دیتی رہی اور ٹور گائیڈ نے اسے منع تک نہ کیا۔ ہم اسے منع کرتے اور لڑائی ہوتی ،تماشہ بنتا ۔۔ہم ایسا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیئے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔
یہاں یہ بات قابلِ غوروفکر ہے کہ کیسے ٹور کمپنیاں ایک الیگل کام کو لیگلی کررہی ہیں۔ اور ان لوگوں کو ایک ہی روم میں ٹھہرایا گیا۔۔ اللہ معافی!
بعد ازاں ٹور کمپنی ہیڈ سے ڈسکس کیا کہ پورا رستہ سکون سے سونا تک محال تھا ۔ ماں بہن کی گالی ہم نے نہ کبھی دی اور نہ سنی اور نہ ہی کبھی ایسے ماحول میں رہے۔
تو اس نے کہا کہ آپ ٹور گائیڈ کو شکایت کرتیں۔۔ وہاٹ اے بِگ جوک اِٹ از۔۔۔ ٹور گائیڈ کے اپنے بھی کان تھے ۔۔وہ خود بھی تو سن رہا تھا۔
وہ لوگ ولاگز بناتے تھے ۔ اور لڑکی نے گاڑی کے اندر کی بھی ویڈیو بنائی۔ ہم نے ٹور گائیڈ سے شکایت کی تو اس نے کہا کہ آپ خود ان کو منع کریں۔۔ اف۔۔۔ تب جا کر ہم نے کہا کہ کیا لڑائی ہو؟آپ ایسا چاہتے ہیں؟؟ تو بولا کہ نہیں میں کہتا ہوں۔۔
گستاخی معاف۔۔مگر وہ ٹور گائیڈ کم۔۔ایک زندہ لاش زیادہ لگ رہا تھا جسے پورا رستہ صرف اپنی مونچھوں سے ہی سروکار رہا۔ افففف۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر۔۔۔
ایک تو ہمارے ہاں کے لوگ بڑے عجیب ہیں ،سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں ہیں تو کوئی نہیں ۔۔جیسے مرضی برتاؤ کریں گے۔۔کیا فرق پڑتا؟ اور ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ یوں لگا جیسے کسی بھیک منگوں کو ٹور پر لے کر جارہے ہیں وہ بھی بناء پیسوں کے۔۔ ہاہا۔۔۔ قسم سے ۔۔ وہ وقت بھی یاد کرنے کو جی نہیں جارہا۔۔
“What a worst day it was. Seriously…”
روم میں شدید قسم کی گٹر کی بدبو ہونے کے باوجود ٹور گائیڈ اس بات سے عاری رہا کہ یہاں کوئی بدبو بھی ہے۔۔ اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ اس سے جب کہا گیا کہ اپنے ہیڈ سے بات کروادو تو بولا کہ میں کروادیتا ہوں بات۔۔اور پھر نظر انداز کردیا۔ شدید بدبو کے باعث نماز تک پڑھنا مشکل ہورہا تھا۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ کوئی نا۔۔ہم ایڈجسٹ کرلیتے ہیں۔۔ اب بندہ پوچھے فری میں گئے تھے؟ جو ایڈجسٹ کرتے؟ خیر۔۔ اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ ہمیں ہر ممکن صورت یہاں سے نکلنا ہے۔۔کیسے ؟ یہ نہیں جانتے تھے۔ ہمارے لیئے وہ علاقہ انجانا سا تھا اور رات کے وقت نکلنا انتہائی غیر محفوظ ہوسکتا تھا ۔ لیکن پھر بھی دل ایک لمحے کے لیئے بھی وہاں رکنے کو تیار نہ تھا۔ سردی کی شدت بے انتہاء بڑھ رہی تھی اور ہم اپنا فون ہاتھ میں لیئے ٹور کمپنی کے ہیڈ کو کال اور میسج میں مصروف تھے۔ لیکن وہ آف لائن تھا۔ بعد ازاں اس نے میسج دیکھ کر نظر انداز کردیا۔
آخر ایک جاننے والے کو میسج کیا اور وہاں سے نکلنے کا پوچھا۔ لیکن پھر بھی کوئی صورت نہ نکلی۔ انٹر نیٹ پرابلم کی وجہ سے میسج بھیجنے میں مسئلہ ہورہا تھا۔ وہ تو شکر اس بھلے انسان کا جس نے اپنے موبائل کا ہاٹ اسپاٹ شئیر کیا۔
پورا رستہ ہم ٹور گائیڈ سے سم لینے کا کہتے رہے لیکن اس نے ہماری بات پہ کان نہیں دھرا۔۔بولا کہ ایس ۔کام کی سم صرف شادرہ سے ہی ملتی ہے۔ اف۔۔۔
بھکاری کس اذیت سے گزرتا ہے۔۔اس وقت احساس ہوا۔ خیر۔۔۔ کھانے کا وقت ہوا تو نہ کھانا کھانے کا دل تھا اور نہ کسی سے بات کرنے کا۔ چارونا چار ڈائننگ ہال میں جانا ہی پڑا۔
کھانے کے دوران ہوٹل کے مینیجر نے ہمیں فون لاکر دیا ۔ بات کرنے پہ معلوم ہوا کہ ہمارے ایک جاننے والے نے ان سے بات کرلی ہے ۔
ہم چاہتے تھے کہ اس ٹور کو پرسنل رکھیں لیکن پھر بھی ہمیں نہ چاہتے ہوئے کسی کی ہیلپ لینی پڑی۔۔ پھر ٹور گائیڈ کا کیا کام ہوا؟
ہوٹل مینیجر نے ٹور گائیڈ سے ساری بات کی ۔ تو ٹور گائیڈ کا اس بات پہ منہ بن گیا کہ آپ نے کسی کو کال کیوں کی؟ اور آپ نے جانا ہی کیوں ہے ؟ کیونکہ ہم لوگ بضد تھے کہ ہمیں ابھی اور اسی وقت جانا ہے یہاں سے۔۔
یہاں ہمارے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی بجائے ٹور گائیڈ کو ٹینشن تھی تو اپنی باقی کی رقم کی۔
“ایسے حالات میں جہاں انسان کی زندگی اہم ہو کیا وہاں پیسہ اہم ہو سکتا ہے؟” مجھے اس لمحے احساس ہوا کہ ہم کسی ہاسپٹل میں کھڑے ہیں۔ اور ٹور گائیڈ جیسے کوئی ڈاکٹر ہو۔ ہم تو اس وقت مریض تھے ہی۔۔
اس سارے سین میں ہمارا مسئلہ حل کرنے والا مسیحا بن کر آیا۔ اسکا احسان ساری زندگی رہے گا ۔۔کیونکہ ہم لوگ تقریباََ 24 گھنٹوں سے جاگ رہے تھے ۔ اور اب آرام کے لیے مناسب جگہ تک موجود نہیں تھی۔ ہمارا رونا تو بنتا تھا۔
ہوٹل کے مینیجر کے لیئے ساری زندگی دعا نکلتی رہے گی ۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ مجھ پہ بھروسہ رکھیں ۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ اب اس صورتحال میں بھروسہ تو ہمیں ہماری سانسوں کا نہیں تھا ۔۔کسی پہ بھروسہ کیا کرتے؟ خیر۔۔ کوئی بیس منٹ بعد ہماری سنی گئی اور ہمارا روم وہاں آئے چند لوگوں کے روم سے تبدیل کیا گیا۔
اب مسئلہ درپیش تھا ان لوگوں کا جن کے ساتھ ہمارا روم تبدیل کیا گیا۔ انکی بحث ہوئی ؟ کیا ہوا؟ ہمیں کچھ علم نہیں۔۔۔ ہمیں تو بس اپنی فکر تھی۔
لیکن ٹور گائیڈ کو بھی اس لمحے اپنے بقایا جات کی پڑی تھی۔ اففففف۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر۔۔سکون کی غرض سے ہم نے کافی بنائی اور سونے کی ہی کی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔۔ اگلے روز پھر سے ایک سین ہوا۔ جیپ سے ہمارا ایکسیڈنٹ ہوتے بچا۔ جیب کا دروازہ کھلا تو ڈرائیور کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔ بولا دروازہ بند کرلو۔ اب چلتی جیپ میں پچھلا دروازہ بند کرنا۔۔ ناممکن تھا۔ اور وہ بھی اس صورت جب جیپ چڑھائی چڑھ رہی ہو۔ ہموار جگہ پہ آتے ہی ہم نے اسے کہا کہ بریک لگاؤ ۔۔لیکن اسے ہماری آواز سنائی تک نہ دی۔ بعد ازاں وہ ڈیزل کے لیئے رُکا تو ہم تینوں جیپ سے باہر آئے ۔
ہم ہوٹل سے کوئی پانچ منٹ کی دوری پہ تھے۔ ہم نے فوراََ سے ٹور گائیڈ کو کال لگائی ۔ اور اسے کہا کہ ہم اس جیپ سے اتر آئے ہیں۔آپ آکر ہماری بات سنیں۔ ہم آپس میں ڈسکس کررہے تھے کہ اب اس کے ساتھ نہیں جانا۔
جیپ والے کو اور کوئی بات سنائی نہیں دی اور اسے یہ سنائی دے دیا۔ بولا کہ مجھے جیپ میں بیٹھے آگے موجود لوگوں نے کہا ہے کہ انہوں نے نہیں جانا۔ افففف۔۔۔۔
اب اس وقت بھی ٹور گائیڈ کے حالات دیکھیں۔۔ اگر آپ کا قصور ہوا تو آپ سے ڈبل کرایہ لیا جائے گا۔ اففف۔۔۔۔ قسم سے ۔۔ٹور گائیڈ تھا یا قصائی ؟ معاملے کی طے تک پہنچے بغیر ہی پیسے کی بات۔۔۔
حالانکہ ہم نے بھی اتنی ہی رقم ادا کی جتنی باقی لوگوں نے کی۔ تو ہمارے ساتھ ایسا کیوں؟ اس لیئے کہ ہم لڑکیاں تھیں۔ان کے مطابق۔۔لڑکیوں کا کیا ہے؟ بول کر چپ کر جائیں گی؟ افف۔۔۔ اسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ ہم کوئی عام لڑکیاں تو ہیں نہیں۔۔
اس نے ہم دو دوستوں کی جگہ بنائی اور ایک دوست کو ایڈجسٹ کرنے کا کہا۔ ہماری تیسری دوست بخوشی راضی ہوگئی۔ اب بعد کی کہانی اس کی زبانی ہمیں معلوم ہوئی۔
اسے لڑکوں کے گروپ کے ساتھ بٹھایا گیا۔ اور لڑکوں کے گروپ میں موجود لڑکی جو اس وقت جیپ کے اوپر موجود تھی، بعد میں جیپ کے اندر آکر بیٹھی ۔اور پھر وہی بے ہودہ زبان کا استعمال ہونا شروع ہو گیا۔اور ہماری دوست کو ان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا پڑا۔ سامنے موجود لڑکوں کا ٹولا ہو اور ایک ایسی لڑکی جو ان چیزوں سے ہمیشہ بچتی ہو۔۔ کیا اسکا ایڈجسٹ کرنا بنتا تھا؟ ہرگز نہیں۔۔۔ لیکن اس نے ایڈجسٹ کیا۔ لیکن اس مقام پہ بھی ٹور گائیڈ کی بات تھی کہ وہ ڈرائیور کو ہمارے سامنے پوچھیں گے کہ ہم نے اسے جانے کا کہا یا نہیں۔۔ اور اگر کہا ہوا تو ڈبل کرایہ۔۔۔اففف۔۔۔۔
ہم نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔جبکہ بعد ازاں ڈرائیور کے سامنے ہم سے کچھ بھی پوچھا نہ گیا۔
وہاں یہ ہمارا آخری دن تھا اور اگلے روز ہمیں نکلنا تھا۔ ہوٹل واپس آتے ہی اس نے جتنی رقم کا تقاضا کیا ہم نے اسے دی۔ اور بات ختم کی۔کیونکہ ہم اس کے ساتھ کسی صورت بھی الجھنا نہیں چاہتے تھے۔
لیکن یہ ٹور ہمارے لیئے سب سے زیادہ بدترین ثابت ہوا تھا۔ اتنا کہ اب تک ہم اس بدترین دن کو کوستے ہیں جب اس ٹور کے ساتھ جانے کی ہامی بھری ۔لیکن یہ وقت ہمیں بہت کچھ سکھا کر بھی گیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں ٹور کمپنی کے ہیڈ نے ہم سے ایکسکیوز کیا۔ لیکن کیا فائدہ؟ جب ہمیں اس کی ضرورت تھی ،تب اس نے ہمارا مسئلہ حل نہ کیا اور بعد میں بولا کہ آپ کو خوب پروٹوکول ملا۔۔اف۔۔۔ یہ ذہنی طور پہ لاچار کرنے والا پروٹوکول تھا۔
کسی کو اذیت دے کر اس سے ایکسکیوز کرلینے سے حق ادا نہیں ہوتا۔۔ بات ختم۔۔۔
فیڈ بیک کے لیئے کمپنی ہیڈ نے کہا کہ یہ ٹور کسی کمپنی کی طرف سے نہیں تھا۔ بلکہ فری لانسر کو ہائر کیا گیا تھا۔ اس نے اور اس کے ایک دوست نے فری لانسر کو ہائر کیا۔ حد ہے ویسے۔۔۔
ہم نے جتنے پلان بنائے تھے سارے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ لیکن اب کیا ہوسکتا؟ اب تو کوئی فری میں بھی کہے کہ ٹور کمپنی کے ساتھ جاؤ تو ہماری توبہ ہے بھئی۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔
ہم لوگوں کی امید اس ایک ٹور سے منسلک تھی کیونکہ ہم تینوں کے پاس ایک دوسرے سے ایک ہی شہر میں ملنے کے لیئے وقت نہیں ہوتا لیکن اس ٹور کی بدولت ہم نے بہت سے پلان بنائے کہ تین دن ایک ساتھ خوب مزے سے گزاریں گے۔۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔۔ لیکن پھر بھی جہاں تک ہو سکا ہم نے خوبصورت یادیں بنائیں۔اس امید کے ساتھ کہ اب جب بھی آئیں گے کبھی کسی ٹور کمپنی کے ساتھ نہیں آئیں گے۔ ان شا ء اللہ!
خیر۔۔۔ اب واقعی کچھ نہیں ہوسکتا ۔۔لیکن اس آرٹیکل کا مقصد کسی ٹور کمپنی یا کسی بندے کی دل آزاری کرنا نہیں۔۔ صرف اتنا ہے کہ خدا کے لیئے اپنے کاروبار کو حلال بنائیں۔ یہاں تو آپ بچ جائیں گے۔۔لیکن بروزِقیامت آپ کو ضرور جواب دینا ہوگا۔
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔آمین۔۔۔ ثم آمین۔۔۔
(برائے کرم اس آرٹیکل کا مقصد کسی کی ذات پہ حملہ کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ایسی صورتحال کو برداشت کرکے خاموش رہنا ہے۔ اگر اس برائی کو ہم دل میں برا جانیں گے تو یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہوگا۔ )
(Copied)
از قلم: کالم نگار عظمٰی ضیاء