Sana Zafar is a popular Urdu digest writer known for her emotional and engaging stories. Her novels often explore themes of love, misunderstandings, and strong female characters, making her a favorite among Urdu fiction readers.
Sneakpeak
” مس تنوینہ میں آپ کا ملازم نہیں ہوں جو بیٹھا آپ کا انتظار کرتار ہوں ” اس کا سخت لہجہ غصے سے بھر پور تھا۔
سر میں یہ ۔۔ وہ ۔۔ فائل “۔ وہ لڑکھڑا گئی۔
“شٹ اپ”۔ اس نے کہا اور ہاتھ میں پکڑا کاغذ اس کی طرف اچھال دیا۔
” یہ لیٹر آپ نے ٹائپ کیا ہے ؟”
نہیں سر۔ تانیہ نے کیا ہے “۔ وہ سمجھتے ہوئے انداز میں بولی۔ ” لے جائیں اسے اور اچھی طرح چیک کر کے لائیں میرے پاس “۔ سریہ فائل؟” اس نے سجے ہوئے انداز میں پوچھا۔ میرے سر میں مارو اسے “۔ وہ چپ کھڑی رہی اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ چلی جائے یا فائل کھول کے اس کے سامنے رکھ دے۔
“آپ نے یہاں آنے کی زحمت کیوں کی مس تنوینہ ؟” انتہائی رکھائی سے کہا تو وہ جواب کے لیے لفظ ڈھونڈنے لگی لیکن وہ پھر بول اٹھا۔
“آئی ایم سوری نہ تو اب آپ کے لیے کوئی سیٹ خالی ہے اور نہ ہی اس کمپنی کو اب آپ کی ضرورت ہے۔”
“آئی ایم سوری سر میری مجبوری تھی کہ آپ کو اطلاع نہ کر سکی ۔”
“مجبوری عیاشیوں اور آوارہ گردیوں کو آپ مجبوری کا نام دیتی ہیں ۔”
وہ جو اس وقت سے اپنا غصہ کنٹرول کیے بیٹھا تھا ایکدم بے قابو ہو گیا۔
“آئی ایم سوری میں تنوینہ ہماری کمپنی کو با کردار ورکرز کی ضرورت ہے۔ آپ جیسی مردوں کے ساتھ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے ہوٹلنگ کرنے اور شاپنگ کرنے والی لڑکیوں کی نہیں ۔”
اس کے لہجے میں حقارت اور نفرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس کی زبان سے لفظ نہیں شعلے نکل رہے تھے جنھوں نے اسے سرتا پاؤں جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔ کئی لمحوں تک تو حیرت و صدمے سے اس کی آواز گنگ ہوئی وہ حیرت و بے یقینی ہے اس کو تکے گئی۔
کچھ دیر بعد ہوش و حواس کی دنیا میں آئی اور سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی۔ ذلت و توہین کے احساس اور غم و غصے سے اس کی مٹھیاں بھینچ گئیں اور جسم کا سارا خون چہرے پر جمع ہو گیا۔
“مسٹر ارسل منصور۔” وہ بولی تو اس کا لہجہ پھنکارتا ہوا تھا۔
“میں نے آج تک آپ کی ہر زیادتی کو برداشت کیا، ہر ذلت کو سہا اپنی ہر تذلیل پر خاموش رہی، لیکن میں یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی میرے کردار پر کیچڑ اچھالے۔ میں اپنی کردارکشی کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کر سکتی ۔ افسوس صد افسوس مسٹر ارسل مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ اتنی گندی اور گھٹیا سوچ کے مالک ہیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ کی ذہنیت اتنی پست ہے۔ رہی بات ملازمت کی آپ جیسے انسان کے ساتھ اب میں دو منٹ بھی رہنا گوارا نہیں کر سکتی ۔ آپ کا مجھ پر یہی بہت احسان عظیم ہے کہ آپ نے اتنا عرصہ مجھے برداشت کیا لیکن افسوس مجھے اس بات پر ہے کہ میں نے آپ کو سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کی ہے۔ بہت بڑی۔”
اس نے انتہائی دکھ اور غصے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ایسے دیکھا اور پھر ایک جھٹکے سے مڑی اور تیز تیز قدم اٹھاتی باہر نکل گئی۔ اور اپنے کمرے سے اپنا بیگ اور چادر اٹھائی اور چلی گئی۔